Posts

رنگ پردیسی کو

Image
رنگ پردیسی کو مل گئے پرواز کو پر  اب مل گئے سج دھج کرکے اڑنا ہے راج اب فضا میں کرنا ہے لڑنا ،جھگڑنا لڑ لڑ کے منانا ستم سہنے کا نیا طرزچلانا وچھوڑے دا غم جاندا نہیں کسی ویلے بس ہن رہندا نہیں ماں تُوں دوری بڑا ستاندی اے اکھیاں ہن نہراں  وگاندیاں  نیں غم دی گل کریندے گل مک جانی مٹی وچ مٹی ایویں ای  مل جانی اس کی ذات جلوہ گر ہے ۔  نور محمد کے سکون بخش   سر فضاؤں میں بکھر رہے ہیں  ۔  اور میں مسافر ، مسافروں کے سامنے رقص کیے جارہی ہوں ۔ ظاہر سے لگے ہے کہ میں ہوش کھوئے جارہی ہوں   ۔   میرے یار کی بخشش   مجھے مدہوش کیے جا رہی ہے ۔ اس نے سدھ بدھ مجھے دے کر میرے سارے  بے کل سوتے اپنے پاس رکھ لیے ہیں ۔ سبھی تاروں کو اکٹھا ملائے جارہا ہے اور اپنے ذکر کی مالا پروئے جارہا ہے ۔  مجھے  وہ  وحدت کی راہ دکھائے  جارہا ہے ۔میں تو ہواؤں کی بستیوں میں گم ہوتی جارہی ہوں میری ذات دھواں دھوان ہوتی جارہی ہے ۔ میرے یار کی  تجلی بڑی میٹھی ہوتی ہے  ، سکون بخشتی ہے  ایسا کہ دل گداز سے بھر جاتا ہے اور  آنکھ نم ہوتے بھی نم نہیں رہتی ، ملن  کا احساس لہریں لینے لگتا ہے کہ انجانی کشش خوشی کی لہریں بہاتی

دل اک سرزمین

دل،  اک سرزمین ہے،  یہ زمین بلندی پر ہے. زمن نے گواہ بَنایا ہے اور ساتھ ہوں کہکشاؤں کے. سربسر صبا کے جھونکے لطافت ابدی کا چولا ہو جیسا. ازل کا چراغ قید ہے. یہ قدامت کا نور وہبی وسعت کے لحاط سے جامع منظر پیش کرتا ہے. کرسی حی قیوم نے قیدی کو اپنی جانب کشش کر رکھا ہے  وحدت کے سرخ رنگ نے جذب کیے ہوئے جہانوں کو چھو دیا ہے. شام و فلسطین میں راوی بہت ہیں اور جلال بھی وہیں پنہاں ہے.  دل بغداد کی زمین بنا ہے سفر حجاز میں پرواز پر مائل ہوا چاہے گا تو راقم لکھے گا کہ سفر بغداد کا یہ باب سنہرا ہے جس میں شاہ جیلان نے عمامہ باندھا ہوگا اور لفظِ حیات پکڑا تھمایا ہوگا. وہ لفظ حیات کا عقدہ کوئی جان نہیں پائے گا . بس یہ موسویت چراغ کو عیسویت کی قندیل سے روشنی نور محمدہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل رہی. وہ بابرکت مجلی زیتون کا درخت جس کے ہر پتے کا رنگ جدا ہے مگر درخت نے سب پتوں کو نمو دیے جانے کس نگر کا سفر کرادیا ہے. داستان گو نے کہا ہے کہ انمول خزینے ہوتے ہیں جہاں نورانی مصحف شاہ جیلاں اتارتے ہیں اور کہنے والے کہتے پیرا سچا بغداد ساڈا.  اودھی دستار دے رنگ وی وکھو وکھ. اوہی سچے دا سچا سچ

رحمت ‏

آشیاں میرا ہے یا ترا ہے؟  تو جہاں ہے اور مکان میرا ہے! دستارِ شوق مرے سر پر، سر ترا ہے یا مرا ہے!  رحمت تری نگاہ ہے اورنگاہ میں رستہ ترا ہے یا مرا ہے؟  تلاش مکمل ہوچکی ہے کہ الف سے الف تلک کی بات خالی الف کی بات نہیں ہے  الف سے پہلے ہونا ہے اور الف کے بعد ہونا ہے  پہلے نفی ہے اور بعد میں محبت ہے رحمت ہے،  ماممتا ہے. محمد کی میم ہے. ان گنت درود سیدی سرکار دو جہان پر - صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے. میم کا سفر ہے اور میم ایک ہے. اور رسائی میم تلک الف بنا نہیں ہوتی. الف ہونا آسان کہاں؟ لم یلد ولم یولد  محبت نہیں،  عشق کا سودا ہے  راکھ ہوتی قبا نہیں،  روح ہے  انجذاب درد کے تیر ہورہے ہیں  الف نے پکار لیا ہے  میم سے اظہار ہے  روح مشکبار ہے  رات پھول پھول  چمن مہک  مہک زمین سرخ سرخ  دیپ روشن روشن  چاندنی چاند دونوں  ماہتاب کے پیش ہیں  ید بیضائی ہالہ دل.پر یہ فاطمہ کا لعل ہے جن کی پیشانی سرخ سرخ ہے، جن کی بات اظہر من شمس ہے کہ شمس کی تابش میں پروانے جل جاتے ہیں اور قصیدہ شانِ قلندر شروع ہوتا ہے!  رنگِ حسینی برنگ  لعل یمنی ہے اور عقیق دہنی ہے. یہ سراج دہنی ہے  زندگی اک قالب میں،  کہاں. ہاں اک قالب

سیدہ ‏بی ‏بی ‏جانم ‏

اک ہیبت حسن ہے کہ غیبتِ دل ہے  اور جانے کس نگر سے کشش کی ہوا مجھے کھینچ رہی ہے. زمین کو زمان والے نے بُلایا ہے. خاک نشین تو خاک سے وراء ہوگیا ہے  خاکی اس کی خاک میں کھو کے الحی القیوم کا ذکر ہوگیا ہے. دھیان کر کہ دل کے میان میں نگاہ کے تیر ہیں. جبین جھکتی سیّدہ کو سلام پیش کیے جائے. جانِ حزین کہ رو ہے دل میں. منجمد برق تھی میری اور "رو " بن گئی جب سے ان کو دیکھا. دل نے کہا کھیعص!  کھیعص!  کھیعص!  عاصی کو آس رہی ہے اور آس نے آس میں خود کو چھپالیا ہے. یہ شان رو ہے کہ برق نو ہے. سیّدہ بی بی جانم طہارت کی اعلی مثال کہ مثال ثانی نہیں کوئی!  ان جیسا بننے کی کوشش گستاخی ہے. ان کو دیکھنا عین گستاخی ہے. بس نین جھکے رہتے ہیں اور سجدہ ہوجاتا ہے.  سربقدم سیدہ عالیہ ہے  سر خالی مگر وہ عالی  وہ جن کی تربت پر ہے  نور کے دل کی ہے تھالی  تربتِ زہرا نشیمن ہو مرا تربتِ زہرا سدا رہوں میں  قصور نہیں ہے مگر کشور کا مالک کہتا ہے مکسور ھ ہے اور بی بی جانم کے پاس واؤ کا چشمہ ہے. آیتِ تکویر دل میں ہے اور سورہ مریم چمک رہی ہے. میں نے بی بی مریم سے ان سے سایہ پاتے پایا ہے. طہارت مستعار لی گئی ہے اور لی

کھیعص ‏

پھر سے سرگوشی ہوئی ہے اور پھر احساس کے دریچے سے آواز داخل ہوئی ہے. یہ آواز کو سُنارَہا ہے من نگر کی بتیاں عشق میرا. جسم فانی ہے اور روح اعظم ہے. روح اللہ ہے اور جانب جانب چہرہ اللہ کا ہے  فرش پر رہنے والے نے دستک سنادی ہے. شدت میں روکا گیا ہے اور سنگیت کی وادی میں جسم فانی کا گیت روح گانے لگی ہے  وہ گرج جو فانی دنیا نے سنائی تھی،  اسکا گیت روح نے گایا ہے کہ تار سے تار مل گئی  زمانہ زمانہ سے مل گیا  جسم میں افلاک طویل قدامت کا حسن لیے ایسے لامثال لہُ ہستیاں ہیں کہ دل نے کہا  اے فقیرِ چشتی  اے رہبرِ ہستی  اے کافر مستی  اے تیورِ زمنی  اے جانِ لحنی  یہ تھا قفل جس میں کہا گیا کاف اک برق ہے،  وہ برق جس کو طین سے نسبت ہے اور برق جس نے منسوب کیا ہے مٹی کو اور مٹی کو اچک لے یا مٹی اچک لے اس میں خود کو تو مٹی مٹی نہیں رہتی،... جیسے کہف والوں کا کتا سبقت لے گیا بالکل ایسے مٹی سبقت لیجاتی ہے. یہ سابقہ خواب والوں کو ملتا ہے کہ لاحقہ بھی خوب سے ملتا ہے درمیان میں اللہ ہے  جس نے جہان بھر کو مٹی کو مٹی کردیا اور اپنے نشانِ موت کو عزرائیل سے تعبیر کردیا. جبرئیل امین روح الامین  موت کے فرشتے جانشین. میک

ملوہیت ‏سے ‏الوہیت ‏تک

آج جسقدر ملوہیت کا مالک تمھارا حسن ہے گویا تم نیلے آکاش پر رہنے والی اک ایسی انجیلِ تحریر ہو جس کو یوحنا کے مقدس مصحف سے لیا گیا ہے. قندیلِ نُو .. قندیلِ نو برقِ نو ....  اشجار پر پربت کے سائے  پربت پر انوار ہیں چھائے  افلاک منور ہیں  تم کو ملوہیت کی مٹی نصیب ہے  تم الوہیت کے چراغوں سے جل چُکی ہو  گمان کیا ہے؟ خیال کیا ہے؟   کمان کیا ہے؟   تم دور افق پر رہنے والے رانجھے سے پیار کی بات کرتی ہو مگر رانجھا تو نشان والا ہوتا ہے وہ نشان جو تمھارے سینے میں چمک رہا ہے  جل اُٹھا  کیا؟ دل - دل کو جلنا ہی تھا نا  تُمھارے کوچے میں بیٹھی ماہل کو کیسے منایا جائے کہ تم بھی خُدائی راز ہو  راز؟  فاش راز کیا راز ہوتا ہے؟ آج تم کو کس نے پکارا؟ میں نے؟ نہیں،  ھو کا نشان ہے  نَہیں،  یہ تو گمان ہے  نہیں، یہ تو نسیان ہے  نہیں، یہ تو ہیجان ہے  ہاں، ہاں، یہ گمان ہے  ہاں، ہاں، کن فکان ہے  ہاں ہاں، گورستان ہے  ہاں، ہاں بوستان ہے  یہ تتلیاں، یہ پہلیاں ہیں، یہ اداس نگر سے وجدان کی جانب جانے والے راز جن کو تم سہہ چکی ہو مگر کہتی ہو کہ میں نہیں کہتی بلکہ یار کہتا ہے. یہ سب گورکھ دھندہ ہے کہ کائنات کہانی ہے اور کردا

نے قرار نے مائل کرم

نے قرار، نے مائلِ کرم، بس تغافل است من از کُجا، عشق از کُجا ایں حال است ز عکسِ زَہرہ منم گرویدہ ایں خراب است اُو پَری چہرہ کجای؟  منم فدایم حالِ گدایم سلام ستم پروردہ ایں دل خستہ، فنا گشتم زیست برائے بندگی؟ ایں حال نیستم تو موجود کُنم در زہر گدائی؟  " من شدی، تو شدم " گفتم : ایں پری چہرہ روشن از مہر، دل خراب شد گفت:  ز عشق فزوں، ز نورفزوں، بہ روح افلاک گوید آمدی پری،  من پری شدی، فرق نیست!  ز بیقراری کیست؟ بس یہ حال کے قافیے، مسدر سے جوڑ رکھے ہیں کہ شیخ گوید تو رند خراب شد، منم گوید کہ منم محو عشق ز ختم شد ...دل کے نِہاں خانے سے درد کی بہترین نہریں نکلیں اور ساری ترے نام سے نکلیں،  سارے محو تمنائی کہ ملے رقص شرر سے شعلہ مگر حیرانم کہ منم ز شعلہ شدم .. اے دل چیخ کی زبان نہیں تو چیخ کو بیان کرنے کو کوئ لفظ وجود نہیں رکھتا ہے، محویت کے سب جام ٹوٹ رہیں تو بس یاد آتا ہے ہر ٹکرے میں ترا رنگ، درد تو فزوں ہوتا جارہا ہے ..ابتدا میں اتنی بے رحمی؟ ابتدا سے وصل کی چند بوندیں اور ہجر کے سمندر میں غوطے،  خاک تھی،  خاک ہوں،  خاک رہیں گے،  اور خاک سے نکلے گی خاک .. خاک میں بس