رنگ پردیسی کو

رنگ پردیسی کو مل گئے پرواز کو پر اب مل گئے سج دھج کرکے اڑنا ہے راج اب فضا میں کرنا ہے لڑنا ،جھگڑنا لڑ لڑ کے منانا ستم سہنے کا نیا طرزچلانا وچھوڑے دا غم جاندا نہیں کسی ویلے بس ہن رہندا نہیں ماں تُوں دوری بڑا ستاندی اے اکھیاں ہن نہراں وگاندیاں نیں غم دی گل کریندے گل مک جانی مٹی وچ مٹی ایویں ای مل جانی اس کی ذات جلوہ گر ہے ۔ نور محمد کے سکون بخش سر فضاؤں میں بکھر رہے ہیں ۔ اور میں مسافر ، مسافروں کے سامنے رقص کیے جارہی ہوں ۔ ظاہر سے لگے ہے کہ میں ہوش کھوئے جارہی ہوں ۔ میرے یار کی بخشش مجھے مدہوش کیے جا رہی ہے ۔ اس نے سدھ بدھ مجھے دے کر میرے سارے بے کل سوتے اپنے پاس رکھ لیے ہیں ۔ سبھی تاروں کو اکٹھا ملائے جارہا ہے اور اپنے ذکر کی مالا پروئے جارہا ہے ۔ مجھے وہ وحدت کی راہ دکھائے جارہا ہے ۔میں تو ہواؤں کی بستیوں میں گم ہوتی جارہی ہوں میری ذات دھواں دھوان ہوتی جارہی ہے ۔ میرے یار کی تجلی بڑی میٹھی ہوتی ہے ، سکون بخشتی ہے ایسا کہ دل گداز سے بھر جاتا ہے اور آنکھ نم ہوتے بھی نم نہیں رہتی ، ملن کا احساس لہریں لینے لگتا ہے کہ انجانی کشش خوشی کی لہریں بہاتی